دیوار و در کا نام تھا کوئی مکاں نہ تھا
میں جس زمین پر تھا وہاں آسماں نہ تھا
میں دشمنوں کی طرح رہا خود سے دور کیوں
اپنے سوا تو کوئی مِرے درمیاں نہ تھا
قدموں میں تپتی ریت تھی چاروں طرف تھی آگ
اور زندگی کے سر پر کوئی سائباں نہ تھا
ڈھونڈی تھی ماں کی گود میں جائے اماں مگر
بے چینیوں کو میری وہاں بھی اماں نہ تھا
میرے سفر میں بھیڑ جو تھی ہم قدم مِری
یادوں کی تھی برات کوئی کارواں نہ تھا
اپنے حصارِ جسم میں کب رہ سکا نظر
دیکھا گیا تھا اس کو جہاں وہ وہاں نہ تھا
بدنام نظر
سلطان عالمگیر
No comments:
Post a Comment