روداد غم انہیں کو سنانے میں رہ گئے
جو لوگ با وقار زمانے میں رہ گئے
آتے میں رہ گئے، کبھی جاتے میں رہ گئے
اچھا سا کوئی شعر سنانے میں رہ گئے
جانا تھا جس کو پار وہ آخر چلے گئے
کچھ لوگ صرف اشک بہانے میں رہ گئے
دنیا جہاں کے لوگ ستاروں کو چُھو لیے
ہم لوگ پتھروں کے زمانے میں رہ گئے
نادان تھے وہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکے
خود اپنے گھر کو آگ لگانے میں رہ گئے
ہم درس وفا روز دیا کرتے تھے جن کو
وہ لوگ صرف بات بنانے میں رہ گئے
کوشش کے باوجود اندھیرا نہ مٹ سکا
کچھ لوگ رات شمع جلانے میں رہ گئے
باقی تھے جتنے وہ تو ذہن میں نہیں رہے
تیرا ہی نام میرے فسانے میں رہ گئے
وہ تو وزیر! آپ ہی دامن بچا لیے
اپنے جو انبیاء کے ٹھکانے میں رہ گئے
وزیر حسن
No comments:
Post a Comment