جو دن کسی کے ساتھ گزرے، نہ مل سکے
حالات گیسوؤں کو سنوارے، نہ مل سکے
جن کشتیوں کو میرے مقدر کی رو ملی
ان کشتیوں کو گھاٹ کنارے، نہ مل سکے
تم کیا گئے کہ رونقِ ہستی چلی گئی
غنچے نہ مسکرائے، ستارے نہ مل سکے
دریا کو کچھ جبر ہے تو دریا سے پوچھیے
کیوں اس مقام پر بھی کنارے نہ مل سکے
دنیا بڑی حسین تھی، لیکن بڑی غریب
ہر راستے میں چاند ستارے نہ مل سکے
ہر باغ کے طیور نہ تھے خوش نوا عدم
ہر دیس میں حریف ہمارے نہ مل سکے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment