Thursday 2 May 2024

ستارے کا چلن لے کر، وہ برق و ابر میں زندہ

 تنویر سپرا


ستارے کا چلن لے کر، وہ برق و ابر میں زندہ

دُکھوں کے بار سے بوجھل، ثبات و صبر میں زندہ

دنوں کے قہر میں ہنستا، شبوں کے جبر میں زندہ

لڑاتا موت سے سانسیں، بدن کی قبر میں زندہ

رہا زندہ وہ جس انداز سے کچھ اُس کا ہی دم تھا

جیا جس شانِ سر افراز سے کچھ اُس کا دم تھا

روا رکھی نہ سوچوں میں، کوئی طرزِ کہن اُس نے

تنِ تخلیق میں پھونکی، نئی اِک روحِ فن اُس نے

کیا آمیخت دانش میں عجب دیوانہ پن اُس نے

خَسِ مضموں کو پہنایا، شرر کا پیرہن اُس نے

اُتارے جُبہ پوشوں کے، نقابِ مکر و فن اُس نے

جلائی جو یقینِ صبح سے شمعِ سُخن اُس نے

رکھا جاری شبوں میں بھی اُجالے کا چلن اُس نے

بھلایا شاعری میں بھی، کہاں مزدور پن اُس نے

کی اونچی بے ستونوں میں، جبینِ کوہکن اُس نے

عطا آہنگروں کو کی، ادائے تیغ زن اُس نے

سکھایا شب چراغوں کو، کمالِ مہ فگن اُس نے

دی ایسی تاب، شیشوں کو، کیا مَر مَر شکن اُس نے

دکھائے چاند چہروں پر، جو خود دیکھے گہن اُس نے

وہی ہے عکسِ فن اُس کی، جو خود بھوگی گھٹن اُس نے

وہ سب دکھ شعر میں ڈھالے، سہی جن کی چبھن اُس نے

وہ جس کے فن سے فکرِ آدمِ نو میں اُجالا ہے

وہ شاعر بھی کہیں اقبال کوثر مرنے والا ہے

ا

اقبال کوثر

No comments:

Post a Comment