عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بیان ہو نہیں سکتیں عنایتیں اس کی
تمام فاصلے میرے ہیں قربتیں اس کی
نماز کیوں نہ ہو معراج آدمی کے لیے
سمیٹ لیتے ہیں سجدے مساففتیں اس کی
نبیؐ و آلِ نبیؑ سے ہے اتنا پیار اسے
درودِ پاک میں رہتی ہیں شرکتیں اس کی
خبر نہ تھی کہ ہے خود مجھ میں عالمِ اکبر
تھا دل کو شوق کہ دیکھ آؤں وسعتیں اس کی
ضمیر کرتے ہیں خود ہی محاسبہ اپنا
کھلی ہیں اپنے دلوں میں عدالتیں اس کی
ملے نہ اذن تو بادل برس نہیں سکتے
ہوائیں چلتی ہیں لے کر اجازتیں اس کی
نہ ایک دانے سے سو دانے بار ور ہوتے
اگر زمین میں ہوتیں نہ برکتیں اس کی
یہ بات بادِ صبا نے مجھے بتائی ہے
گلوں میں آئی ہیں کچھ کچھ شباہتیں اس کی
شبیہہ کھنچ نہ سکی پھر بھی صفحۂ جاں پر
ہزار رخ سے بنائی ہیں صورتیں اس کی
وہ چیونٹیوں کی بھی آوازِ پا کو سنتا ہے
محیط ارض و سما ہیں سماعتیں اس کی
ملال کیوں ہو مجھے اپنی بے مکانی کا
ہیں سر پہ سایہ فگن نیلگوں چھتیں اس کی
کتابِ عالمِ امکاں میں مہر و ماہ نجوم
ہم عارفوں پہ ہیں روشن علامتیں اس کی
یہ حمد و نعت و مناقب، سلام اور نوحے
بیاضِ جاں میں ہیں دراصل آیتیں اس کی
مصفا رکھو ندامت کے آنسوؤں سے انہیں
سروش دیدہ و دل ہیں امانتیں اس کی
آغا سروش حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment