ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو
آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو
پہلے ہی کڑواہٹوں کی زد میں ہے میری زمیں
اور تم اوپر سے میرے مِیٹھے بندے مار دو
اب تو اپنے جُھوٹ سے نظریں ہٹانے کے لیے
ایک ہی رستہ بچا ہے؛ سچے بندے مار دو
اپنے دامن پر لگے یہ داغ دھونے کے لیے
کیا عجب کُلیہ ہے سارے اُجلے بندے مار دو
یوں ہی دردِ سر بنے رہنے ہیں یہ شوریدہ سر
یوں کرو اک ایک کر کے اچھے بندے مار دو
جہاں پناہ اب مارنے میں ہچکچاہٹ کس لیے
جیسے پہلے مارتے تھے ویسے بندے مار دو
یہ رہیں گے تو سوال اُٹھتے رہیں گے حشر تک
مشورہ ہے؛ میرے جیسے سارے بندے مار دو
بعد میں تحقیق کرنا ان کی گُستاخی ہے کیا
گر بہت جلدی میں ہو تو پہلے بندے مار دو
اب جو گھر سے اُٹھ رہی ہیں میتّیں تو بَین کیوں
کس نے بولا تھا کہ تم اوروں کے بندے مار دو
رات کی تحویل میں دے دو مِرا شہر ملال
اور چُن چُن کر مِرے جگنو سے بندے مار دو
سِلوٹیں پہنا دو چہروں کو مکمل سوگ گی
اور پھر چوکوں میں ہنستے گاتے بندے مار دو
چھوڑئیے؛ دُشمن سے لڑنا آپ کا شیوہ نہیں
آپ کے جب جی میں آئے اپنے بندے مار دو
خامشی کی لہر آہٹ ہے کسی طُوفان کی
اتنی آوازیں اُٹھیں گی جتنے بندے مار دو
کیا خبر کب گھر اُٹھا لاؤ کوئی باہر کی آگ
کیا خبر کب کس سے ڈالر لے کے بندے مار دو
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment