یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو
اُٹھانے والوں سے کچھ جُدا ہے، اسے اٹھا لو
وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا
یہ ان کے بارے میں پُوچھتا ہے، اسے اٹھا لو
اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نئیں
مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اسے اٹھا لو
جنہیں اُٹھانے پہ ہم نے بخشے مقام و خِلعت
یہ اُن سیانوں پہ ہنس رہا ہے، اسے اٹھا لو
یہ پُوچھتا ہے کہ امنِ عامہ کا مسئلہ کیوں
یہ امنِ عامہ کا مسئلہ ہے، اِسے اٹھا لو
اِسے کہا تھا؛ جو ہم دِکھائیں بس اُتنا دیکھو
مگر یہ مرضی سے دیکھتا ہے، اِسے اٹھا لو
سوال کرتا ہے یہ دِوانہ ہماری حد پر
یہ اپنی حد سے گُزر گیا ہے، اسے اٹھا لو
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment