Wednesday 8 May 2024

بنائی میں نے اپنا ذہن ادھیڑا

 بُنائی


میں نے اپنا ذہن ادھیڑا

ایک خیال کا لمبا سُوتر سیدھا کر کے

قوسِ قزح کے رنگ لگائے

اور لپیٹا

اس کے جسم کا ناپ لیا

امیدوں کی عینک پہنی

ایک سنہری جذبے کی باریک سلاخیں پکڑیں

نظم بنی، پھر اس نظم کے حصے جوڑے

گانٹھوں سے نکلے مایوسی کے دھاگوں کو کاٹا

میٹھے احساسات کے پانی سے دھویا

شعروں کے باغیچے گھوم کے تازہ لفظ چنے

سات سُروں کی چاندی کے اوراق لیے

اور زمستاں میں اک سُندر لڑکی کو

نرم ملائم نظم کا تحفہ پیش کیا

اس نے تحفہ کھولا 

میں نے پہنایا

پہنانے کے بعد مجھے محسوس ہوا

اس سیارے پر وہ واحد لڑکی ہے

جس پہ نظم بہت جچتی ہے


شعیب کیانی

No comments:

Post a Comment