عشق آفات کی جو زد میں ہے
جانے کس کی نگاہِ بد میں ہے
میرے جیسا کوئی حسین نہیں
مُبتلا شہر کیوں حسد میں ہے
تم نے دیکھا ہے کرب کا چہرہ
جو نہاں میرے خال و خد میں ہے
مان لوں یونہی میں کہا تیرا
یار تُو کون سی سند میں ہے
پہلے دامن بھگوتا تھا تسنیم
اشک دریا اب اپنی حد میں ہے
سیدہ تسنیم بخاری
No comments:
Post a Comment