اول تو یہ تمنا ہے پیار ہی نہ ہو
ہو جائے تو خدایا اظہار ہی نہ ہو
محفوظ رہ محبت کو جو اگر ملے
کوئی زمانے سے پھر بیزار ہی نہ ہو
تو مائل محبت ہے مجھ کو بھی ہے چاہ
کیا ہو سماج کا یہ معیار ہی نہ ہو
ایسی تو میری قسمت ہو سکتی ہی نہیں
اظہار میں کروں اور انکار ہی نہ ہو
غائب خدا، مگر ہے موجود آدمی
بہتر ہے آدمی سے تکرار ہی نہ ہو
دولت کے جو ترازو میں تولے حسن کو
دنیا میں وہ ہجومِ اقدار ہی نہ ہو
جذبات میرے بے وقعت ہیں، فضول ہیں
اعجاز کوئی مجھ سا لاچار ہی نہ ہو
اعجاز کشمیری
No comments:
Post a Comment