Friday 10 May 2024

بتا نہ یہ کیسا دکھ ہے

 عجیب دُکھ


یہ کیسا دُکھ ہے جو میرے پیچھے 

نجانے کتنے دنوں سے یونہی لگا ہُوا ہے

میں پوچھتا ہوں یہ کیسا دُکھ ہے؟

یہ کیسا دُکھ ہے جو مجھ کو اندر سے کھا رہا ہے 

یہ رائیگانی کا دُکھ ہے مجھ کو 

یا پھر الگ ہی معاملہ ہے 

یا پھر کسی سے محبتوں کے عوض میں مجھ کو یہ مل رہا ہے 

مجھے بتائے یہ کوئی آ کر یہ کیسا دُکھ ہے، یہ کیا بلا ہے 

اے میرے مالک! کہاں ہے تُو کہ تِرا یہ بندہ 

تڑپ رہا ہے اک ایسے دُکھ میں کہ جس کا اس کو پتہ نہیں ہے

تجھے تو ہر شے کا علم ہے نا 

تُو بادشاہ ہے

تُو دیکھتا ہے

تُو سُن رہا ہے

تُو جانتا ہے

تُو بادشاہ ہے، مجھے بتا نا 

میں تیرے بندوں میں ایک بندہ 

یہ پوچھتا ہوں یہ کیسا دُکھ ہے 

تُو دیکھتا ہے تو پھر بتا نا 

کیا میں نے تیرے کسی بھی بندے کا دل دُکھایا

اگر نہیں تو 

بتا یہ مجھ کو یہ کیسا دُکھ ہے 

تُو سن رہا ہے اگر جو سب کو تو پھر بتا نا 

کہ میں نے سجدوں میں کس طرح سے تجھے پُکارا 

میں چیختا تھا کہ میرے مالک 

اے میرے مالک! مجھے بتا نا یہ کیسا دُکھ ہے

تُو جانتا ہے 

تجھے پتہ ہے 

یہ کیسا دُکھ ہے 

اے میرے مالک مجھے بتا نہ یہ کیسا دُکھ ہے 

مجھے بتا نہ یہ کیسا دُکھ ہے 

بھری جوانی میں دیکھ مولا! مجھے یہ کیسا بنا گیا ہے

اے میرے مالک! یہ دُکھ تو میری تمام خوشیاں ہی کھا گیا ہے


حمزہ حسام

No comments:

Post a Comment