وہ شخص جو زخموں کی رِدا دے کے گیا ہے
اس شہر میں جینے کی سزا دے کے گیا ہے
صدیوں سے میں سناٹوں کی بستی میں کھڑا ہوں
یہ کون مجھے سنگِ صدا دے کے گیا ہے
آیا تھا کوئی لے کے اُجالوں کا صحیفہ
بے نُور چراغوں کو ضیا دے کے گیا ہے
رستے میں شجر ہے نہ کہیں یاد کا سایہ
وہ جانے مجھے کیسی دُعا دے کے گیا ہے
خوابوں کے دریچوں سے گہر لوٹنے والا
کچھ میری طلب سے بھی سوا دے کے گیا ہے
سوچا تھا بُجھا دے گا مِرے سوز دروں کو
دیکھا تو وہ شعلوں کو ہوا دے کے گیا ہے
وہ پھول سا چہرہ کہ جو کل ساتھ تھا میرے
اک درد مِرے دل کو نیا دے کے گیا ہے
کس سوچ میں ڈوبے ہو پریشان ہو خالد
وہ شخص تو جینے کی دُعا دے کے گیا ہے
خالد رحیم
No comments:
Post a Comment