جنموں کی داستاں ہے یہ عمروں کا میل ہے
کس نے کہا ہے عشق بھی رنگوں کا کھیل ہے
انساں تِرے نصیب کی گندم نہ اُگ سکی
سونا پہاڑ میں، کہیں صحرا میں تیل ہے
وہ دُکھ بھی دے تو کر نہیں سکتی اسے جُدا
لپٹی ہوئی بدن سے یہ آکاس بیل ہے
نایاب ہے وفا کہیں بحرانِ مخلصی
ویسے قدم قدم پہ محبت کی سیل ہے
ہمت نہیں تو دل کو ہتھیلی پہ مت سجا
بُزدل تو امتحان میں ویسے ہی فیل ہے
حاصل ہوئی تو چیز کی وقعت نہیں رہی
جس گھر میں قید ہوں کسی رشتے کی جیل ہے
اک تم ہی لوٹ کر کبھی واپس نہ آ سکے
ورنہ تمہارے شہر سے آتی تو ریل ہے
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment