Sunday, 5 May 2024

ستارہ شام کو اپنے لہو میں پھر نہائے گا

 تنہائی


صبح کا ہنستا ستارہ تنہا

کون جانے رات بھر کس کرب سے گزرا ہے

ان گھنے پیڑوں سے لمبے تیز دانتوں والے عفریت نکل کر

ٹیڑھی ٹانگوں بد نما پیروں سے کومل چاندنی کے فرش پر ناچے

کھردرے ہاتھوں سے پھولوں کے جگر چاک کئے

اپنی نظروں کی سیاہی سے نکھرتے ہوئے رنگوں کے چراغوں کو بجھایا

اپنے نفرت بھرے سانسوں کی بھڑکتی ہوئی آتش میں محبت کی مہکتی

ہوئی صندل کو بھسم کر ڈالا

صبح کا ہنستا ستارہ تنہا

کون جانے دن بھر اب کس آگ کے دریا سے گزرے

آفتاب اپنی دمکتی رتھ میں

شب کے عفریتوں کو مسند پر بٹھائے گا

تو سچائی کے پھولوں پر بھی موٹی دھول جم جائے گی

آنکھیں پتھرا جائیں گی

رنگوں کا تماشا تو رہے گا

باس اڑ جائے گی

کوئی زہر کا پیالہ نہ ہونٹوں سے لگائے گا

ستارہ شام کو اپنے لہو میں پھر نہائے گا


اعجاز فاروقی

No comments:

Post a Comment