تنہائی
صبح کا ہنستا ستارہ تنہا
کون جانے رات بھر کس کرب سے گزرا ہے
ان گھنے پیڑوں سے لمبے تیز دانتوں والے عفریت نکل کر
ٹیڑھی ٹانگوں بد نما پیروں سے کومل چاندنی کے فرش پر ناچے
کھردرے ہاتھوں سے پھولوں کے جگر چاک کئے
اپنی نظروں کی سیاہی سے نکھرتے ہوئے رنگوں کے چراغوں کو بجھایا
اپنے نفرت بھرے سانسوں کی بھڑکتی ہوئی آتش میں محبت کی مہکتی
ہوئی صندل کو بھسم کر ڈالا
صبح کا ہنستا ستارہ تنہا
کون جانے دن بھر اب کس آگ کے دریا سے گزرے
آفتاب اپنی دمکتی رتھ میں
شب کے عفریتوں کو مسند پر بٹھائے گا
تو سچائی کے پھولوں پر بھی موٹی دھول جم جائے گی
آنکھیں پتھرا جائیں گی
رنگوں کا تماشا تو رہے گا
باس اڑ جائے گی
کوئی زہر کا پیالہ نہ ہونٹوں سے لگائے گا
ستارہ شام کو اپنے لہو میں پھر نہائے گا
اعجاز فاروقی
No comments:
Post a Comment