گلیوں کی راستوں کی مُحلوں کی خیر ہو
تیری طرف کے سارے درختوں کی خیر ہو
وہ چھت پے آ گئی ہے کُھلے بال چھوڑ کر
اُڑتے ہوئے فلک پہ پرندوں کی خیر ہو
جو ہاتھ تیرا تھام کے سِگنل کے پار ہوں
ان خوش نصیب سارے ہی اندھوں کی خیر ہو
ہے بادشاہ دُور محل سے گیا ہُوا
تنہا ہیں بیگمات وزیروں کی خیر ہو
میں تو گُناہگار سزا کا ہوں مستحق
لیکن دُعا ہے آپ سے اچھوں کی خیر ہو
یہ جُھوٹ بولتے ہیں؛ محبت ہو تم مِری
اِن جُھوٹ بولتے ہوئے لوگوں کی خیر ہو
آتا ہے یاد بچپنا یوں ان کو دیکھ کر
گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کی خیر ہو
اِس کی فلاں کی اُس کی بھی یعنی تمام کی
حسّام تم کو چھوڑ کے ساروں کی خیر ہو
حمزہ حسام
No comments:
Post a Comment