عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گھوم آیا اگرچہ ہے سب افلاک تصور
چومے ہے مدینے کی مگر خاک تصور
جس پر کروں نقش آپؐ کے نعلینِ مقدس
لاؤں میں کہاں سے بھلا وہ پاک تصور
پہنچو جو مدینے میں تو رہنا ہے مؤدب
اس شہر میں ہونا نہیں بے باک تصور
اس ذات کی تمدیح کہاں مجھ سے ہے ممکن
کیا میرا شعور، آگہِی، ادراک، تصور
اس بارگہِ ناز میں قابو میں جنوں ہو
کرنا نہ گریبان وہاں چاک، تصور
لوٹے یہ مدینے سے تو اب خود کو مِٹا کر
اوڑھے ہو شہاؐ! عجز کی پوشاک، تصور
معمور ہے گُل ہائے مدینہ کی مہک سے
پہنچا تھا جو آلودۂ خاشاک، تصور
طیبہ نہ رسائی ہو تو ہر آن ہے رہتا
افسردہ و رنجیدہ و غمناک، تصور
ثاقب ہے مؤخر تو اسے دیجے حضوری
ہے اِذن کا طالب شہِ لَولاکﷺؐ! تصور
ثاقب علوی
No comments:
Post a Comment