Friday 10 May 2024

فدائے من فدائے من کی گونج ہے پکار میں

 فدائے من، فدائے من کی گونج ہے پکار میں

کہ انقلاب ہے نہاں مرے لہو کی دھار میں

چراغ جل اٹھے ہیں سب، ابھی کٹی ورید شب

یہ قوم تھک چکی ہے اب، سحر کے انتظار میں

اے بلبلِ سخن سرا، چمن کو چھوڑ ادھر کو آ

کہ سرخیاں ہی سرخیاں ہیں دشت کارزار میں

تو کون ہے کہ جو مری قضا کا فیصلہ کرے

یہ کام ہے فقط مرے خدا کے اختیار میں

عجب نہیں عدو بھی اس کی تیغِ تیز چوم لیں

کوئی تو بات ہے نا اُس بلا کے شہ سوار میں

اٹھو الم زدو اٹھو کہ اپنی آخری امنگ

ہے دشمنوں کی قید میں، ہے غیر کے حصار میں

یہ لوگ تو ملنگ ہیں انہیں کسی کا خوف کیا؟

یہ چھوڑتے نہیں کسی کو جنگ میں یا پیار میں

سو پھر خدا کی خلق نے زمین کو ہلا دیا

خدا بنا ہوا تھا کوئی تخت کے خمار میں

یہ اپنے خوں کی موج ہے، یہ فوج اپنی فوج ہے

جو نوچتی ہے اپنے روح و جسم اقتدار میں

امیؔر، خلق ناتواں کو عام جانتے تھے جو

پناہ ڈھونڈتے ہیں اب عوام کے غبار میں


امیر سخن

No comments:

Post a Comment