بھر کے دامن میں ترا رنج، تری یاد سمیت
لوٹ جائیں گے اسی گریۂ بے داد سمیت
جیسے ہم کارِ جہاں کیلئے موزوں ہی نہ ہوں
ہم کو لَوٹا دیا جاتا رہا اسناد سمیت
لوگ چوپال میں بیٹھے تھے مگر ساکت تھے
ہم بھی خاموش رہے زخم کی روداد سمیت
جوتشی کوئی الٹ پھیر کا حل ہے کہ نہیں
سب ستارے ہیں نحوست بھرے، اعداد سمیت
میں نے ہی بھوک کو خیرات پہ برتر رکھا
لوگ آئے تھے مری سمت بھی امداد سمیت
میں تو جو دیکھ رہی ہوں وہی بولوں گی سدا
قید کردیجئے مجھ کو لبِ آزاد سمیت
میں نے کس جبر میں کاٹی ہے یہ پسماندہ حیات
مجھ کو کوئی بھی نہ سمجھا مری اولاد سمیت
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment