یاد ہے اب تک مجھے عہد جوانی یاد ہے
دل کے بسنے اور اجڑنے کی کہانی یاد ہے
یاد ہے اب تک کسی کی مہربانی یاد ہے
عارضوں پر اپنے اشکوں کی روانی یاد ہے
بستر حرماں پہ وہ پہلو بدلنا بار بار
غم کی راتوں میں وہ قہر آسمانی یاد ہے
روٹھنے اور روٹھ کر مننے کے ہر انداز کی
مہربانی یاد ہے نا مہربانی یاد ہے
یاد ہے اب تک مجھے وہ عالم گفت و شنید
روبروئے دوست پیغام زبانی یاد ہے
یاد ہے اب تک ترے مکتوب رنگیں کی بہار
سادہ سادہ کاغذوں پر گل فشانی یاد ہے
بار بار اٹھنا سر محفل نگاہ ناز کا
گردش جام شراب ارغوانی یاد ہے
قرب کی گھڑیوں میں گاہے ہجر کے لمحات میں
کامرانی یاد ہے ناکامرانی یاد ہے
بارگاہ حسن میں اے برقؔ فرط رعب سے
یاد ہے اب تک وہ اپنی بے زبانی یاد ہے
برق پونچھوی
(شِو رتن لال)
No comments:
Post a Comment