Wednesday, 13 March 2024

یاد ہے اب تک مجھے عہد جوانی یاد ہے

 یاد ہے اب تک مجھے عہد جوانی یاد ہے

دل کے بسنے اور اجڑنے کی کہانی یاد ہے

یاد ہے اب تک کسی کی مہربانی یاد ہے

عارضوں پر اپنے اشکوں کی روانی یاد ہے

بستر حرماں پہ وہ پہلو بدلنا بار بار

غم کی راتوں میں وہ قہر آسمانی یاد ہے

روٹھنے اور روٹھ کر مننے کے ہر انداز کی

مہربانی یاد ہے نا مہربانی یاد ہے

یاد ہے اب تک مجھے وہ عالم گفت و شنید

روبروئے دوست پیغام زبانی یاد ہے

یاد ہے اب تک ترے مکتوب رنگیں کی بہار

سادہ سادہ کاغذوں پر گل فشانی یاد ہے

بار بار اٹھنا سر محفل نگاہ ناز کا

گردش جام شراب ارغوانی یاد ہے

قرب کی گھڑیوں میں گاہے ہجر کے لمحات میں

کامرانی یاد ہے ناکامرانی یاد ہے

بارگاہ حسن میں اے برقؔ فرط رعب سے

یاد ہے اب تک وہ اپنی بے زبانی یاد ہے


برق پونچھوی

(شِو رتن لال)

No comments:

Post a Comment