لگتے ہیں پریشان در و بام سرِ شام
ہر سمت پڑی حسرتِ ناکام سرِ شام
اک بار اگر وصل کی صورت جو نکل آئے
ہو رقص مری جان سرِ عام سرِ شام
چپ چاپ جلاتا ہوں دیا پیار کا جس روز
ہوتا ہوں اسی روز میں بدنام سرِ شام
شب بھر کو کہاں ہوش میں رہتے ہیں یہی لوگ
پی لیں جو نگاہوں سے تری جام سرِ شام
وہ مجھ سے جدا ہو کے کہاں جائے گا اس وقت
چھاتا ہے مرے ذہن پہ ابہام سرِ شام
کانٹوں کے جو پہلو میں پڑا بکھرا ہے بے جان
”چل دیکھ ذرا پھول کا انجام سرِ شام“
انمول رہے لوگ جو دن بھر ہیں وہی دیکھ
آصف ہیں پڑے اب تو وہ بے دام سرِ شام
آصف علی علوی
No comments:
Post a Comment