Wednesday, 13 March 2024

بلا کا شور و فغاں ہے نہاں خموشی میں

 بلا کا شور و فغاں ہے نہاں خموشی میں

میں کھل کے سامنے آیا ہوں پردہ پوشی میں

نگاہِ عدل سے دیکھیں تو میرِ محفل کے

جلال و مال معاون ہیں عیب پوشی میں

میں تن ہوں، شہ رگِ جاں کو مجھے بچانا ہے

چلا ہوں جانبِ کشمیر سرفروشی میں

جس انبساط سے سقراط پی گیا تھا جام

اسے یقین تھا اَمرِت ہے زہر نوشی میں

یہ کیا کہ زعمِ قضاوت میں قید کر لیا ہے

کوئی تو عیب نکالیں جناب دوشی میں

تمہاری آنکھ سے ملتا ہے جو زمانے کو

کہاں سرور ہے ایسا شراب نوشی میں

یتیمِ تازہ کو یہ ناگوار گزرے گی

عزا کی بات نہ کر رسمِ تاجپوشی میں


مکرم حسین اعوان

No comments:

Post a Comment