Monday, 11 March 2024

دھڑکنوں کی زباں میں رہتا ہوں

 دھڑکنوں کی زباں میں رہتا ہوں

ہر نئی داستاں میں رہتا ہوں

میں نے چاہا نہیں خُدا ہونا

پھر بھی کیوں لامکاں میں رہتا ہوں

چلتے رہنا مِرا مقدر ہے

وقت کے کارواں میں رہتا ہوں

ایک مرکز پہ ہوں بِکھر کر بھی

میں یقین و گُماں میں رہتا ہوں

پُھول کِھلتے ہیں، ہاتھ آتے نہیں

خواب گِیں گُلستاں میں رہتا ہوں

مُجھ پہ کِرنیں برستی رہتی ہیں

شبِ مہتابِ جاں میں رہتا ہوں

زندگی کی مُجھے مُبارک دو

قریۂ بے اماں میں رہتا ہوں

میری دِیوانگی ہے ہوش فروش

ذہنِ فرزانگاں میں رہتا ہوں

مُجھ کو اپنے جہاں میں ڈُھونڈتے ہو

میں تو اپنے جہاں میں رہتا ہوں

مُجھ سے مُمکن نہیں، نہیں کہنا

دوستداروں کی ہاں میں رہتا ہوں

سعئ پیہم نصابِ ہستی ہے

دم بدم امتحاں میں رہتا ہوں

بِجلیاں جس کے گِرد ناچتی ہیں

میں اُسی آشیاں میں رہتا ہوں

مُسکراہٹ کا تِیر ہوں رزمی

میں لبوں کی کماں میں رہتا ہوں


بشیر رزمی

No comments:

Post a Comment