Monday 11 March 2024

نیا یہ شہر ہے لیکن کہیں کچھ بھی نہیں بدلا

 کہیں کچھ بھی نہیں بدلا


نیا یہ شہر ہے لیکن

اکیلے پن کی وحشت نے

یہاں بھی گھیر رکھا ہے

وہی الجھن پریشانی

جو پہلے تھی

سو اب بھی ہے

کہیں کچھ بھی نہیں بدلا

وہی دن ہیں وہی راتیں

وہی ہم ہیں وہی ماتیں

یہاں بھی سو بلائیں ہیں

جگر کا خون پینے کو

یہاں بھی دم نکلتا ہے

فقط اک سانس جینے کو

یہاں بھی سانپ بن کر

آستیں میں روگ پلتے ہیں

یہاں بھی آرزو کے نام پر

بس سوگ پلتے ہیں

یہاں بھی بے سکونی ہے

یہاں بھی گھر نہیں اپنا

یہاں بھی بے زمینی ہے

یہاں بھی کہر میں لپٹی ہوئی

راتوں کی سردی ہے

یہاں بھی مشغلہ اپنا

وہی آوارہ گردی ہے

یہاں بھی ان گنت اسباب ہیں

نیندیں اڑانے کو

یہاں بھی خوبصورت لوگ ہیں

دل کے چرانے کو

ذرا اک فرق سے

پریوں کا کوئی دیس ہے یہ بھی

تمہارے شہر جیسا ہے

مگر پردیس ہے یہ بھی

وہی سب ہے جو پچھلے شہر میں

ہم چھوڑ آئےہیں

وہی الجھن پریشانی

جو پہلے تھی

سو اب بھی ہے

کہیں کچھ بھی نہیں بدلا

کہیں کچھ بھی نہیں بدلا


ابرار ندیم

No comments:

Post a Comment