کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
نیا یہ شہر ہے لیکن
اکیلے پن کی وحشت نے
یہاں بھی گھیر رکھا ہے
وہی الجھن پریشانی
جو پہلے تھی
سو اب بھی ہے
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
وہی دن ہیں وہی راتیں
وہی ہم ہیں وہی ماتیں
یہاں بھی سو بلائیں ہیں
جگر کا خون پینے کو
یہاں بھی دم نکلتا ہے
فقط اک سانس جینے کو
یہاں بھی سانپ بن کر
آستیں میں روگ پلتے ہیں
یہاں بھی آرزو کے نام پر
بس سوگ پلتے ہیں
یہاں بھی بے سکونی ہے
یہاں بھی گھر نہیں اپنا
یہاں بھی بے زمینی ہے
یہاں بھی کہر میں لپٹی ہوئی
راتوں کی سردی ہے
یہاں بھی مشغلہ اپنا
وہی آوارہ گردی ہے
یہاں بھی ان گنت اسباب ہیں
نیندیں اڑانے کو
یہاں بھی خوبصورت لوگ ہیں
دل کے چرانے کو
ذرا اک فرق سے
پریوں کا کوئی دیس ہے یہ بھی
تمہارے شہر جیسا ہے
مگر پردیس ہے یہ بھی
وہی سب ہے جو پچھلے شہر میں
ہم چھوڑ آئےہیں
وہی الجھن پریشانی
جو پہلے تھی
سو اب بھی ہے
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
ابرار ندیم
No comments:
Post a Comment