Monday, 11 March 2024

وقت کا مقروض مت رہ کام یہ باقی نہ رکھ

 وقت کا مقروض مت رہ کام یہ باقی نہ رکھ

تجربے دُنیا کو لوٹا، بات الحاقی نہ رکھ

مصلحت کے بِیج سے اُگتی ہے کج فہمی کی بیل

تیرے میرے درمیاں اب کوئی ناچاقی نہ رکھ

اس زمیں کے واسطے تیری سُخن گوئی ہے ٹھیک

تُو فرشتوں کے لیے اک شعر آفاقی نہ رکھ

آج سب اوڑھے ہوئے ہیں بے اصولی کی قبا

ضابطہ کوئی نیا دُنیا میں اخلاقی نہ رکھ

فن کی دیوی کے بنے ہیں بے ہُنر آقا اگر

اپنے فن پاروں میں تُو بھی کوئی مشّاقی نہ رکھ

بندگی کی لذتوں سے کس لیے واقف نہیں؟

رکھ چُکا پیشِ نظر اب تک جو خلّاقی، نہ رکھ

عہد و پیماں بُھول کر کیوں کر رہا ہے شور و شر

بزمِ طاغوتی میں پھر کیوں نُورِ میثاقی نہ رکھ؟


انیس انور

No comments:

Post a Comment