فضائے دشت مجھے اپنے گھر سی لگتی ہے
چٹان ریت کی دیوار و در سی لگتی ہے
تُو ڈالتا ہے مِرے سر پہ پیار سے آنچل
تو اپنی ہستی مجھے معتبر سی لگتی ہے
کچھ اس طرح مِرے گُلشن میں آگ پھیل گئی
بھرے چمن پہ کسی کی نظر سی لگتی ہے
نہ جانے کب سے اُٹھائے ہوں اپنے ہاتھ مگر
دُعائے نِیم شبی بے اثر سی لگتی ہے
قدم قدم پہ مجھے راستے بتانے کو
کسی کی یاد ہے جو راہبر سی لگتی ہے
مِرے درخت کی یہ ایک شاخ کیسی ہے؟
بھری بہار میں بھی بے ثمر سی لگتی ہے
ہوائیں دیتی ہیں رہ رہ کے دستکیں ثروت
تو وہ صدا بھی مجھے نامہ پر سی لگتی ہے
ثروت ظفر
No comments:
Post a Comment