کم بھی تھے اگر فن کے خریدار بہت تھے
بکنے پر اتر آتے تو بازار بہت تھے
پھر بھی نہ کھلی آنکھ تو کیا کیجیے ورنہ
احباب کے جھٹکے ہمیں دو چار بہت تھے
دن نکلا بہتّر کے سوا کوئی نہیں تھا
کل رات تو سر دینے کو تیار بہت تھے
لگنے نہ دیا جوہر ذاتی کو کبھی زنگ
ٹوٹے ہوئے آئینے تھے خوددار بہت تھے
اک حوصلہ تھا جس نے رکھا ہم کو سلامت
حالات وہاں ورنہ دلآزار بہت تھے
کردار کا شہکار وہاں کوئی نہیں تھا
محفل میں تری غازیٔ گفتار بہت تھے
اے خضر کہاں غالبؔ و ناطقؔ کہاں ہم تم
دریا تھے وہ ایسے جو گہر بار بہت تھے
خضر ناگپوری
No comments:
Post a Comment