Monday, 11 March 2024

کم بھی تھے اگر فن کے خریدار بہت تھے

کم بھی تھے اگر فن کے خریدار بہت تھے

بکنے پر اتر آتے تو بازار بہت تھے

پھر بھی نہ کھلی آنکھ تو کیا کیجیے ورنہ

احباب کے جھٹکے ہمیں دو چار بہت تھے

دن نکلا بہتّر کے سوا کوئی نہیں تھا

کل رات تو سر دینے کو تیار بہت تھے

لگنے نہ دیا جوہر ذاتی کو کبھی زنگ

ٹوٹے ہوئے آئینے تھے خوددار بہت تھے

اک حوصلہ تھا جس نے رکھا ہم کو سلامت

حالات وہاں ورنہ دلآزار بہت تھے

کردار کا شہکار وہاں کوئی نہیں تھا

محفل میں تری غازیٔ گفتار بہت تھے

اے خضر کہاں غالبؔ و ناطقؔ کہاں ہم تم

دریا تھے وہ ایسے جو گہر بار بہت تھے


خضر ناگپوری

No comments:

Post a Comment