گردش میں غریبوں کا ہر وقت ستارا ہے
کہنے کو ہیں سب اپنے، پر کون ہمارا ہے
تزئینِ بہاراں میں یہ خون ہمارا ہے
برباد گلستاں کو ہم نے ہی سنوارا ہے
یوں امن کی بستی میں طوفاں نہ بپا ہوتا
’’کچھ اپنوں کی سازش ہے کچھ اُن کا اشارا ہے ‘‘
ہر ایک قدم میرا بڑھتا ہوا رُک جائے
دورانِ سفر مجھ کو پھر کس نے پکارا ہے
آکاش میں اُڑنے کی حسرت ہی رہی قیصر
آزاد پرندہ کا، پنجرہ میں گزارا ہے
عبدالصمد قیصر
No comments:
Post a Comment