آگ سینے کی بجھا لوں پانی
سرخ آنکھیں ہیں بہا لوں پانی
خرچ کم کم ہو سنبھالوں پانی
ہو سکے جتنا بچا لوں پانی
عنقا ہونے لگا ہے اب یہ بھی
سب کی نظروں سے چھپا لوں پانی
کل سے آیا نہیں ہے ایسا ہو
دے کے آواز بلا لوں پانی
قطرہ قطرہ جو بھر کے رکھا تھا
رتنوں سے وہ نکالوں پانی
بجلی غائب، کبھی ندارد گیس
اس پہ غم تیرا بھی پا لوں پانی
ہولی آئے تو رنگ ہو جاؤں
ہو دیوالی تو جلا لوں پانی
آج کتنے دنوں کے بعد آیا
اوڑھ لوں یا کہ بچھا لوں پانی
سیما عابدی
No comments:
Post a Comment