ہم اپنے شہر کے چہروں کو دیکھتے ہیں بہت
کہ خود کو دیکھنا چاہیں تو آئینے ہیں بہت
نہ جانے کون سی منزل پہ آ گئے ہم لوگ
کہ ہاتھ پاؤں ہیں شل اور ولولے ہیں بہت
ہمارے اشک حقارت سے دیکھنے والو
کسی زمانے میں ہم لوگ بھی ہنسے ہیں بہت
یہ کیا مذاق ہے یارانِ عصرِ حاضر کا
سکوں کے نام پہ زخموں کو چھیڑتے ہیں بہت
سُنا ہے چاند پہ انساں پہونچ چُکا، لیکن
سکونِ دل کے لیے ہم ترس رہے ہیں بہت
کسی حسین کی باہوں میں کب تلک اے قیس
رہِ حیات میں اپنے ہی مسئلے ہیں بہت
قیس رامپوری
No comments:
Post a Comment