Tuesday 12 March 2024

ہم اپنے شہر کے چہروں کو دیکھتے ہیں بہت

 ہم اپنے شہر کے چہروں کو دیکھتے ہیں بہت

کہ خود کو دیکھنا چاہیں تو آئینے ہیں بہت

نہ جانے کون سی منزل پہ آ گئے ہم لوگ

کہ ہاتھ پاؤں ہیں شل اور ولولے ہیں بہت

ہمارے اشک حقارت سے دیکھنے والو

کسی زمانے میں ہم لوگ بھی ہنسے ہیں بہت

یہ کیا مذاق ہے یارانِ عصرِ حاضر کا

سکوں کے نام پہ زخموں کو چھیڑتے ہیں بہت

سُنا ہے چاند پہ انساں پہونچ چُکا، لیکن

سکونِ دل کے لیے ہم ترس رہے ہیں بہت

کسی حسین کی باہوں میں کب تلک اے قیس

رہِ حیات میں اپنے ہی مسئلے ہیں بہت


قیس رامپوری

No comments:

Post a Comment