Tuesday 12 March 2024

محبت ہے وہ قلزم جس کی طغیانی نہیں جاتی

 محبت ہے وہ قلزم جس کی طغیانی نہیں جاتی

کٹی اک عمر لیکن دل کی ویرانی نہیں جاتی

بڑی مدت سے زنجیرِ فرنگی کٹ گئی لیکن

مگر ذہنوں سے اب تک اُن کی نگرانی نہیں جاتی

جو سر سجدے میں کٹے جائے محبت کے تقاضے پر

جہانِ عشق میں ضائع وہ قربانی نہیں جاتی

خزاں کا زرد پتہ بن گیا میرا بدن ایسا

مِری تصویر بھی اب مجھ سے پہچانی نہیں جاتی

معطر ہوکے نکلے جو یقین و حق کے قلزم سے

کسی ظالم کو سجدے میں وہ پیشانی نہیں جاتی

مِرے اللہ نے جو تحفتاً مجھ کو عنایت کی

مِرے آنگن سے غربت کی وہ سلطانی نہیں جاتی

اسے کچھ اس قدر مجھ سے عقیدت ہے کہ مت پوچھو

ہمارے دل کے در سے گل پریشانی نہیں جاتی


گل بخشالوی

No comments:

Post a Comment