سوال سوال سیاہ کشکول
مدتوں سے
خموشی کے بے انت ورنوں کی اندھی گپھا میں
کھڑا وہ
میری پُتلیوں میں
سوالوں کا نیزہ اُتارے ہوئے پُوچھتا ہے
میں تیری تمنا میں اپنے لیے
درد کے اک سیہ رو سمندر سے
تنہائیوں کے سیہ سیپ لایا
سکھ کے سارے دیے
اور مسرت کی مالاؤں کو توڑ کر
دکھ کا ور میں نے مانگا
کہ تو میری رکھشا کو آئے
مگر مجھ کو کیوں
ان اذیت کی کالی صلیبوں پہ
خاموشیوں کی درندہ صفت کیل سے جڑ دیا ہے
مجھے کس لیے پھینکا گیا ہے
اعجاز راہی
No comments:
Post a Comment