ثواب کا یہ قرینہ بھی آزمایا جائے
کسی کے دل میں کوئی راستہ بنایا جائے
نظر میں رہنے کا سادہ سا یہ طریقہ ہے
کسی بہانے وہاں روز آیا جایا جائے
ہمارے عیب کا اظہار اس طرح سے ہو
ہمیں بتا کے کسی کو نہیں بتایا جائے
ستا رہی ہو اگر دل کو شامِ تنہائی
تو اس کی یاد کے پہلو میں بیٹھ جایا جائے
ہو دشمنی کا تعلق کہ دوستی کا ہو
جو استوار کیا ہے تو پھر نبھایا جائے
غیاب میں نہ کریں دل سے وہ ابھی بے دخل
صفائی پیش کریں گے ہمیں بُلایا جائے
یہ جشن فتح مقابل کے دم قدم سے ہے
جو ہار جائے اسے بھی گلے لگایا جائے
سلمان صدیقی
No comments:
Post a Comment