سنو جاناں غم دنیا کی کثرت ہے یہاں پر
تمہیں میری مجھے تیری ضرورت ہے یہاں پر
ہمارے دل میں رہ سکتی ہو شہزادی کی صورت
ازل سے حسن والوں کی حکومت ہے یہاں پر
وہاں تم شہر کی گلیوں میں نیندوں کو سمیٹو
مِرا ہر خواب زندہ ہے سلامت ہے یہاں پر
ذرا دنیا کی رسموں کو تو دیکھو میرے ہمدم
محبت کرنا بھی تو اک کرامت ہے یہاں پر
کسی نے ہاتھ تھاما، نا دلاسا ہی دیا ہے
کئی صدیوں سے ہجرت میں محبت ہے یہاں پر
تمہارے نام سے ہم جیت تو آئے ہیں دنیا
جسے دیکھو اسے ہم سے عداوت ہے یہاں پر
مِرا یہ دل تِری خوشبو سے خالی تو نہیں ہے
سجا رکھنا سدا پھولوں کو عادت ہے یہاں پر
عرفان شاہد
No comments:
Post a Comment