Tuesday 5 March 2024

ہے شام بھی یہ آخری دل بھی دکھا ہوا

 ہے شام بھی یہ آخری دل بھی دُکھا ہُوا

غم بھی گِھسا پِٹا ہے، سُنایا سُنا ہوا

اس عشق وِشق میں نہیں کچھ بھی رکھا ہوا

سمجھاؤں گا جو مجھ سے مِرا رابطہ ہوا

صحرا کی خاک چھاننے نکلے تو کس طرح

گھر کے معاملات میں عاشق پھنسا ہوا

ہم اپنے حال سے بھی نہیں مطمئن مگر

اچھا ہے، جو ہے، جیسا ہُوا، جو ہُوا ہُوا

فوراً ہی اپنے دل کی ہمیں یاد آ گئی

ہم کو دُکھا تھا کوئی قبیلہ لُٹا ہوا

دُکھ خُودکشی سے بڑھ کے تھا جو دے نہیں سکا

آواز بھی کسی کو کوئی ڈُوبتا ہوا

ہم بھی اُسی روایتی جملے میں آ گئے

مر جائے گا وہ کہتا تھا جس دن جُدا ہوا


عامر عطا

No comments:

Post a Comment