وطن سے دور کی عید
برسوں سے ہم سنتے تھے
کہ عید خُوشی کو کہتے ہیں
وہ لوگ بھی کیا خُوش ہوتے ہیں
جو دُور وطن سے رہتے ہیں
وہ شہر نہیں، جذبات نہیں
وہ دوست نہیں، وہ سات نہیں
وہ چاند نہیں، وہ رات نہیں
پہلی سی اب کوئی بات نہیں
جب یاد سبھوں کی آتی ہے
تو آنسو آنکھ سے بہتے ہیں
کیا عید اسی کو کہتے ہیں؟
پر دل نے یہ سنجھایا ہے
کہ یاد تو اک سرمایہ ہے
اور دُور وطن سے رہ کر بھی
کچھ پُھول سے دل میں کِھلتے ہیں
ہم دیر تلک خُوش رہتے ہیں
ہاں عید اسی کو کہتے ہیں
معاذ صدیقی
No comments:
Post a Comment