Wednesday, 6 March 2024

برسوں سے ہم سنتے تھے کہ عید خوشی کو کہتے ہیں

 وطن سے دور کی عید


برسوں سے ہم سنتے تھے

کہ عید خُوشی کو کہتے ہیں

وہ لوگ بھی کیا خُوش ہوتے ہیں

جو دُور وطن سے رہتے ہیں

وہ شہر نہیں، جذبات نہیں

وہ دوست نہیں، وہ سات نہیں

وہ چاند نہیں، وہ رات نہیں

پہلی سی اب کوئی بات نہیں

جب یاد سبھوں کی آتی ہے

تو آنسو آنکھ سے بہتے ہیں

کیا عید اسی کو کہتے ہیں؟

پر دل نے یہ سنجھایا ہے

کہ یاد تو اک سرمایہ ہے

اور دُور وطن سے رہ کر بھی

کچھ پُھول سے دل میں کِھلتے ہیں

ہم دیر تلک خُوش رہتے ہیں

ہاں عید اسی کو کہتے ہیں


معاذ صدیقی

No comments:

Post a Comment