پھولوں کو شرمسار کسی نے نہیں کیا
کانٹوں کو جھک کے پیار کسی نے نہیں کیا
یوں تو گلا خزاں کا سبھوں نے کیا مگر
شکرانۂ بہار کسی نے نہیں کیا
بنیاد عشق مصلحت آمیز ہو گئی
ملبوس تار تار کسی نے نہیں کیا
تلواریں بے نیام ہیں مذہب کے نام پر
نوع بشر سے پیار کسی نے نہیں کیا
حق کی دہائی دے سبھی خاموش ہو گئے
باطل کو سنگسار کسی نے نہیں کیا
اختر بڑھے چلے گئے سب رہروان شوق
کچھ میرا انتظار کسی نے نہیں کیا
اختر صدیقی
No comments:
Post a Comment