Wednesday 6 March 2024

پھولوں کو شرمسار کسی نے نہیں کیا

 پھولوں کو شرمسار کسی نے نہیں کیا

کانٹوں کو جھک کے پیار کسی نے نہیں کیا

یوں تو گلا خزاں کا سبھوں نے کیا مگر

شکرانۂ بہار کسی نے نہیں کیا

بنیاد عشق مصلحت آمیز ہو گئی

ملبوس تار تار کسی نے نہیں کیا

تلواریں بے نیام ہیں مذہب کے نام پر

نوع بشر سے پیار کسی نے نہیں کیا

حق کی دہائی دے سبھی خاموش ہو گئے

باطل کو سنگسار کسی نے نہیں کیا

اختر بڑھے چلے گئے سب رہروان شوق

کچھ میرا انتظار کسی نے نہیں کیا


اختر صدیقی

No comments:

Post a Comment