Tuesday 5 March 2024

ویسے تو ترے حسن کے میخوار بہت ہیں

 ویسے تو تِرے حسن کے میخوار بہت ہیں

پر مجھ سے کہاں صاحبِ اسرار بہت ہیں

ہر عشق تو اب اتنا مفصل نہیں ہوتا

بس میرے فسانے میں ہی کردار بہت ہیں

دریا بھی سمندر بھی ہیں اس عالمِ غم میں

جیسا کہ یہاں جنگل و کہسار بہت ہیں

پہلے تو تِرے نام سے واقف نہ تھی دنیا

"سنتے ہیں تِرے آج خریدار بہت ہیں"

ہر سمت تِرے حسن کا شہرہ ہے جہاں میں

ہر سمت تِرے نام کے دلدار بہت ہیں

کیا میری رقابت بھی فضیلت ہے بتاؤ

عشّاق مجھے درپئے آزار بہت ہیں

اک غم ہے زمانے میں مجھے غم کا نہ ہونا

اک غم ہے کہ بے غم کے بھی غمخوار بہت ہیں

اسعد کی محبت میں کمی ہے تو کہاں پر

ظالم پہ سعادت کے تو آثار بہت ہیں


اسعد لاہوری

No comments:

Post a Comment