Friday, 1 March 2024

حسرت سے ہم بہ دیدۂ نم دیکھتے رہے

 حسرت سے ہم بہ دیدۂ نم دیکھتے رہے

روکے نہ اس نے بڑھتے قدم دیکھتے رہے

لفظوں میں حُسنِ یار سمیٹوں تو کس طرح

حیرت سے مجھ کو لوح و قلم دیکھتے رہے

میرے علاوہ سب کی طرف دیکھتا تھا وہ

محفل میں شوق سے جسے ہم دیکھتے رہے

یہ اور بات خود نظر آئے نہ وہ کہیں

ہوتے رہے جو ان کے کرم دیکھتے رہے

ٹوٹے ہیں آج پر، تو گرے ہیں زمین پر

اب تک بلندیوں کو ہی ہم دیکھتے رہے

کرب و بلا میں شامِ غریباں کی اوٹ سے

نیزے پہ جو سجا تھا علم دیکھتے رہے

بکھری ہیں دور دور یہ خوابوں کی کرچیاں

اک ایک کرکے ٹوٹے بھرم دیکھتے رہے

جوں جوں نیاز مندیاں میری بڑھیں جلیل

بنتے گئے خدا وہ صنم دیکھتے رہے


احمد جلیل

No comments:

Post a Comment