سنا ہے کہ بہار آ گئى ہے
رات نے نوزائیدہ شگُوفوں کے منہ میں
شبنم کى گُھٹى ڈال دى ہے
بہار جوان کلیوں کے ہونٹوں پر
جیون رس ٹپکانے لگى ہے
درخت سُرخ و گُلابى اور عنابى ہوئے جاتے ہیں
گویا ویران شاخوں پر حسین پریاں
قافلہ در قافلہ اُتر رہى ہیں
چڑیوں نے اپنے بے رنگ اور پُرانے پر اُتار پھینکے ہیں
مُسلسل ہونے والى بُوندا باندى نے
خزاں کے سب زرد رنگ دھو ڈالے ہیں
بوسیدہ پتوں کى دبیز تہہ کے نیچے
اُمیدیں نمو پانے لگى ہیں
خواہشیں سر اُٹھانے لگى ہیں
آنکھوں کى جھیلوں پر خوابوں کے پرندے
واپس لوٹ رہے ہىں
اُٹھو بہار کے رنگ پہنو، آؤ میرا ہاتھ پکڑو
دیکھو ناں
ٹیبل پر رکھے چائے کے دو کپ
ہمارے مُنتظر ہیں
حمیرا نگہت
No comments:
Post a Comment