Saturday, 2 March 2024

تیری چاہت کا ابھی دل پہ اثر لگتا ہے

تیری چاہت کا ابھی دل پہ اثر لگتا ہے

لب تِرے سامنے کھولیں، ہمیں ڈر لگتا ہے

ان کی یادوں کو بُھلایا نہیں دل نے اب تک

تازہ تازہ ابھی ہر زخمِ جگر لگتا ہے

ہر گھڑی گرمئ الفت سے ہے سینہ لبریز

دل میں کوئی تو محبت کا شرر لگتا ہے

ہم نے گِن گِن کے ستارے شبِ ہجراں کاٹی

تارے چُھپنے لگے ہوتی ہے سحر لگتا ہے

ہاں اسی پیڑ پہ پتھر کو اچھالے ہے جہاں

باغ میں جو بھی ثمر دار شجر لگتا ہے

راہِ الفت میں عزیزوں سے جو کھائے ہیں فریب

اپنی پرچھائی سے بھی اب ہمیں ڈر لگتا ہے

کیفیت دل کی عجب، سجدوں پہ آمادہ جبیں

یہ تو فیصل مِرے محبوب کا در لگتا ہے


فیصل گنوری

No comments:

Post a Comment