Saturday, 2 March 2024

ترقی کے اس طوفان میں انسان چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں

 عالمی زوال کا علاج


ترقی کے اس طوفان میں 

عمارتیں اونچی اور انسان

چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں

ترقی اس طوفان میں نام بڑے

ویرانی کا پتہ پوچھ رہے ہیں

ترقی کے اس طوفان میں 

تنظیموں کا وجود بکھر گیا ہے

تحریکیں یتیم ہو گئی ہیں 

اور تاریخ تباہی کا داستان رقم کر رہی ہے

سچ کہاں ہے؟

سچ ترقی اور تباہی کی سرحد پر

اکیلا اور اداس کھڑا ہے

ماہ رمضان کا ادھورا اور اداس چاند

بھوکے بچے کی طرح بلک رہا ہے

اس دنیا کو دماغ فروشی کا بازار کس نے بنایا

دل کو سینے سے نکال کر

کیلکولیٹر کس نے رکھا

اس دھرتی کا بڑا مجرم کون ہے

سیاستدان یا سائنسدان؟

یا ان دونوں نے دو ہاتھوں کی طرح

کائنات کے اس ذخیرے کو لُوٹا ہے

جس کا نام زمین ہے

اب ادیب پیار کے لیے نہیں 

پیسے کے لیے لکھتا ہے

شاعر، فلمساز کو گِیت بیچتا ہے

مصور ماڈلنگ کمپنیز کا ملازم ہے

اب کوئی کارل مارکس پیدا کیوں نہیں ہوتا

وہ کیوں نہیں بتاتا کہ اس دور کا 

سب سے بڑا مذہب سرمایہ داری ہے

سارے عقائد اس سسٹم کو 

جُھک سلام کرتے ہیں

با ریش مولوی، گرین کارڈ کے لیے

گِریہ کرتے ہیں 

کافر دانشور بیرون ملک بیٹھ کر

علم اور عقل کا کاروبار کرتے ہیں

اب واشنگٹن میں ابراہم لنکن محض ایک بُت ہے

امریکہ کی حکمرانی ٹرمپ کے گناہگار ہاتھوں میں ہے

روس میں لینن کی کرسی پر پیوٹن براجمان ہے

چین میں ماؤ کی چیئر پر شی بنگ چن بیٹھا ہے

اور ویٹنام کے وزیراعظم کا نام کس کو معلوم ہے؟

اس عالمی زوال کا علاج کیا ہے؟


اعجاز منگی

No comments:

Post a Comment