Saturday, 9 March 2024

محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفی

 محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفی

لیے داغ جدائی حسرت ناکام ہے صوفی

اگر الزام ہے کوئی تو یہ الزام ہے صوفی

کہ تو اپنی شرافت کے لیے بدنام ہے صوفی

ہمیں ہر دور میں تھے گردش ایام کے مارے

مگر ہم سے علاج گردش ایام ہے صوفی

بہ فیض رسم مے خانہ بدلتے ہی رہے ساقی

جو بن مانگے پلائے ساقیٔ گلفام ہے صوفی

کشاکش‌ ہائے ہستی نے جسے دیوانگی بخشی

وہ دیوانہ حریف تلخیٔ ایام ہے صوفی

تِرے گیتوں کی جھنکاروں سے دنیا گونج تو اٹھی

مگر کاشی کی نگری میں بڑا گمنام ہے صوفی


صغیر احمد صوفی

No comments:

Post a Comment