Saturday 9 March 2024

شگوفے آرزو کے پھوٹتے ہیں

 شگوفے آرزو کے پُھوٹتے ہیں

حسیں جب بن سنور کر گھُومتے ہیں

لبوں کی نازکی پُھولوں سے بڑھ کر

گُلابی گال اب دل لُوٹتے ہیں

تیرے نوخیز جوبن کی ہوا سے

مِرے قلب و نظر سب جُھومتے ہیں

تخیّل میں وہ بانہیں ریشمی ہیں

انہی بانہوں کا جُھولا جھولتے ہیں

خِراماں ناز دل کش صُورتوں کے

تِرے آگے پسینے چُھوٹتے ہیں

تِرے آنے سے آئی روشنی تھی

تِرے جانے سے جذبے رُوٹھتے ہیں

غزل میں حُسن بکھرا دیکھ کر سب

غزل گو شعر میرے چُومتے ہیں

نہیں دیکھی اگرچہ راہِ اُلفت

کب انسان اس کا رستہ بُھولتے ہیں

ہُوا جن کا گُزر اُن کی گلی سے

پتہ اب اپنے گھر کا پُوچھتے ہیں

اُٹھاتے ہیں حسیں چہرے سے پردہ

تو ثاقب ہاتھ پاؤں پھُولتے ہیں


عباس علی شاہ ثاقب

No comments:

Post a Comment