ڈرائے گی ہمیں اب کیا یہ انتہائے نصاب
بہت کٹھن تھا ہمارا تو ابتدائے نصاب
میں جانتی ہوں میرا قتل عین واجب ہے
کہ پڑھ رہی ہوں سرِ عام ماورائے نصاب
محبتوں کی کہانی کہاں سے دہرائیں؟
کہ نقش دل پہ وہی ہو جسے مِٹائے نصاب
ناممکنات میں نا خُوشگوار حیرت تک
سُنے سُنائے فسانے، رٹے رٹائے نصاب
میرے حروفی تہجی تلک نہ جان سکا
تھا اختیار مکمل جسے بنائے نصاب
اپنے اپنے طور سے گزرے تمام رستوں سے
رہی پُکارتی دُنیا کہ ہائے ہائے نصاب
سوال نامۂ عُمرِ رواں پہ گُم سُم ہوں
نہ مُمتحن سے تعلق نہ آشنائے نصاب
فاخرہ انجم
No comments:
Post a Comment