Saturday, 9 March 2024

ڈرائے گی ہمیں اب کیا یہ انتہائے نصاب

 ڈرائے گی ہمیں اب کیا یہ انتہائے نصاب

بہت کٹھن تھا ہمارا تو ابتدائے نصاب

میں جانتی ہوں میرا قتل عین واجب ہے

کہ پڑھ رہی ہوں سرِ عام ماورائے نصاب

محبتوں کی کہانی کہاں سے دہرائیں؟

کہ نقش دل پہ وہی ہو جسے مِٹائے نصاب

ناممکنات میں نا خُوشگوار حیرت تک

سُنے سُنائے فسانے، رٹے رٹائے نصاب

میرے حروفی تہجی تلک نہ جان سکا

تھا اختیار مکمل جسے بنائے نصاب

اپنے اپنے طور سے گزرے تمام رستوں سے

رہی پُکارتی دُنیا کہ ہائے ہائے نصاب

سوال نامۂ عُمرِ رواں پہ گُم سُم ہوں

نہ مُمتحن سے تعلق نہ آشنائے نصاب


فاخرہ انجم

No comments:

Post a Comment