Monday 4 March 2024

موسم ہجر ہے وحشت ہے رسوائی ہے

 موسم ہجر ہے وحشت ہے رُسوائی ہے

پھر تِری یاد ہے، شام ہے، تنہائی ہے

اک آفتابِ محبت پہ ابر آیا ہے

وصل کی شب ہے سحر کی انگڑائی ہے

دل شکستہ ہے کوچۂ جاناں میں مقید

ہے یہ محبت کا جنوں یا پسپائی ہے؟

آج مُعطر ہے فضا مِری داستانوں سے

آج لگتا ہے صبا دشت سے ہو آئی ہے

بھیگی زُلفیں ہوں، نظریں ہوں، لبِ آتش ہو مگر

کیفِ تخیّل سے طبیعت مِری بھر آئی ہے

ہم تشنۂ لب جو ٹھہرے ازل سے سعید

آنکھیں دریا ہیں مگر دل بڑا صحرائی ہے


سعید ہاشمی

No comments:

Post a Comment