Monday, 4 March 2024

چشم عشاق میں نمناکئ وحشت رہ جائے

 چشمِ عشاق میں نمناکئ وحشت رہ جائے

جاں چلی جائے مگر عشق سے نسبت رہ جائے

خوابِ آوارہ کی تکمیل تو ہو گی لیکن

کہیں ایسا نہ ہو پھر وا درِ ہجرت رہ جائے

ہم سے سرزد ہو اچانک کوئی ایسی غلطی

لڑکھڑا جائیں قدم تھوڑی مسافت رہ جائے

کس کے گھر جائے گی بے چہرگئ تہمتِ عشق

زندہ رہنے کے لیے بارِ ملامت رہ جائے

یہ زمیں تنگ نہیں پھر بھی ضروری ہے بہت

خاکساروں کے لیے خانۂ عبرت رہ جائے

لب پہ ہے شکوۂ ناقدرئ اہلِ نظراں

کیسے ممکن ہے دستار سلامت رہ جائے

بے یقینی نہ ہو تو پھر ہو وہاں کیا شاداب

جہاں رشتے نہ رہیں صرف ضرورت رہ جائے


شاداب احسانی

No comments:

Post a Comment