عمر کٹ جائے گی اپنی تو یہ حاجت کرتے
تجھ کو چائے پہ بلاتے تِری دعوت کرتے
ان کو گر ایک نظر دیکھ لیا جاتا تو
وہ ہمارے ہی قبیلے کی حمایت کرتے
تم نے ہی ہاتھ بڑھایا تھا ہماری جانب
ورنہ ہم آنکھ مِلانے کی نہ جرأت کرتے
وصل کی شام میسّر جو ہمیں ہو جاتی
رات بھر ہم تِری جی بھر کے عبادت کرتے
زخم جتنے بھی تھے سینے میں وہ باہر لاتے
اور ہر اک کو سمجھنے میں سہولت کرتے
موسیٰ کاظم
No comments:
Post a Comment