دکھ کے عالم میں بھی خاموشی سے جینے والے
ایسے ملتے ہیں کہاں لوگ قرینے والے
باقی سب زخم تو بھر جاتے ہیں رفتہ رفتہ
مجھ کو بے چین رکھیں زخم یہ سینے والے
اپنی چاہت کے بہت جام پلائے تھے جنہیں
یار میرے وہی نکلے یہاں، کینے والے
کیا ہوا، تُو نے ارادہ کیوں بدل ڈالا ہے؟
تیرے ہاتھوں سے تو ہم زہر تھے پینے والے
ہر طرف راج ہے نفرت کا، حسد کا، لوگو
اب کہاں لوگ محبت کے خزینے والے
میرے آنگن میں اداسی ہے خزاں ہے یارو
جا چکے چھوڑ کے سب ساتھ میں جینے والے
تیری آنکھیں نہیں ، دو مے کے بھرے پیالے ہیں
مست رہتے ہیں تِری آنکھوں سے پینے والے
درگزر کرتا ہوں اس واسطے دشمن سے رضا
میرے مرشد میرے آقاؐ ہیں مدینے والے
فرخ رضا ترمذی
No comments:
Post a Comment