Wednesday 6 March 2024

دکھ کے عالم میں بھی خاموشی سے جینے والے

 دکھ کے عالم میں بھی خاموشی سے جینے والے 

ایسے ملتے ہیں کہاں لوگ قرینے والے

باقی سب زخم تو بھر جاتے ہیں رفتہ رفتہ 

مجھ کو بے چین رکھیں زخم یہ سینے والے

اپنی چاہت کے بہت جام پلائے تھے جنہیں 

یار میرے وہی نکلے یہاں، کینے والے

کیا ہوا، تُو نے ارادہ کیوں بدل ڈالا ہے؟

تیرے ہاتھوں سے تو ہم زہر تھے پینے والے

ہر طرف راج ہے نفرت کا، حسد کا، لوگو 

اب کہاں لوگ محبت کے خزینے والے

میرے آنگن میں اداسی ہے خزاں ہے یارو 

جا چکے چھوڑ کے سب ساتھ میں جینے والے

تیری آنکھیں نہیں ، دو مے کے بھرے پیالے ہیں 

مست رہتے ہیں تِری آنکھوں سے پینے والے

درگزر کرتا ہوں اس واسطے دشمن سے رضا

میرے مرشد میرے آقاؐ ہیں مدینے والے


فرخ رضا ترمذی

No comments:

Post a Comment