سمٹ جاتا کیسے اور پھر کیسے بکھرتا تھا
ہماری زندگی میں کوئی کیسے رنگ بھرتا تھا
سمجھ رکھا ہے جس نے پانیوں کو اپنی ملکیت
کبھی آ کر مِرے دریاؤں سے اپنے مشکیزے بھرتا تھا
تیرا یہ دل ہی میرے واسطے پہلی پناہ گاہ ہے
میں ورنہ کب کسی کے آئینوں میں یوں سنورتا تھا
وہ چہرہ گُم گیا جس میں میری آنکھوں کی رونق تھی
وہ نمبر بند ہے جس پر میں گھنٹوں بات کرتا تھا
محبت غیر مادی چیز ہے تو پھر وہ اک سایہ
وہ اک سایہ جو نصفِ شب کو مِری چھت سے اُترتا تھا
کسی ٹیرس پہ کوئی آنکھ میری منتظر کب تھی
میں ان گلیوں سے ان کُوچوں سے بس جونہی گُزرتا تھا
تیری خُوشبو سے میرے دل کا موسم تک بدل جاتا
تیرے بوسے سے پیشانی پہ تارا سا اُبھرتا تھا
خلیل الرحمٰن حماد
No comments:
Post a Comment