Sunday, 10 March 2024

کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر

 کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر

آ گیا دیس سے میں دیس نکالا لے کر

مجھ کو محفل سے نکالے گا بھلا وہ کیسے

میں تو آیا ہوں یہاں تیرا حوالہ لے کر

کسی دیوار میں بھی دیکھا نہیں دروازہ

بڑا مایوس ہوا ہاتھ میں تالا لے کر

چاند آوارہ ہوا آ کے میری بستی میں

ابھی نکلا ہے کسی گھر سے وہ ہالا لے کر

آج تو سارا سفر بانٹ دیا تھا اس نے

اور میں بیٹھا رہا پاؤں کا چھالا لے کر

تیری دنیا کے حسیں لوگ یہ کہتے ہیں مراد

آ گیا اپنی طرح بخت بھی کالا لے کر

چاند جو ہاتھ کسی کے نہیں آتا تھا مراد

میں نے چوما ہے اسے ایک اچھالا لے کر


رحمان امجد مراد

No comments:

Post a Comment